Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر شہرِ گُل سوئے صØ+را Ú†Ù„ÛŒ Û”Û”Û”Û” نجف زہرا تقوی

chor ka shehar e gul.jpg
عالیہ اپنی خالہ Ú©ÛŒ بہو تھی اور بہت چاہتوں سے بیاہ کر لائی گئی تھی لیکن وقت گزرنے Ú©Û’ ساتھ جانے کیوں Ø+الات بدلتے گئے اور عالیہ Ú©Û’ لیے جان لیوا ثابت ہوئے۔پتا ہی نہیں چلا کہ ساس کا بدلتا رویہ اسے موت Ú©ÛŒ وادی میں کب Ú†Ù¾ چاپ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ آیا۔ شادی Ú©Û’ دوسرے ہی دن گھر Ú©Û’ تمام ملازمین کونکال دیا گیا۔ اØ+مد اپنے والدین کا سب سے بڑا اور لاڈلا بیٹا تھا۔ دیہات میں رہنے والا Ø+مید اللہ کا یہ خاندان اپنے مال مویشی اور زمیندارے میں اپنی مثال آپ تھا لیکن رواج Ú©Û’ مطابق بیٹے Ù†Û’ Ù…ÚˆÙ„ تک تعلیم Ø+اصل Ú©ÛŒ اور نوکری Ú©Û’ لیے دبئی چلا گیا۔ دو سال دل لگا کر اتنا کمایا کہ والدین Ú©ÛŒ خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ گھر میں ہر قسم Ú©ÛŒ سہولت موجود تھی غرضیکہ کسی چیز Ú©ÛŒ Ú©Ù…ÛŒ نہیںتھی ،کچھ Ú©Ù… ہوتا بھی بھی تو اØ+مد Ú©ÛŒ کمائی سے پوری ہوجاتا۔ اØ+مد Ú©ÛŒ شادی بھی بڑی دھوم دھام سے Ú©ÛŒ گئی۔ لوگ اØ+مد Ú©ÛŒ بیوی Ú©ÛŒ قسمت پر رشک کرتے۔ اØ+مد Ú©ÛŒ بیوی Ú©Ùˆ آئے چند دن گزرے کہ ساس Ù†Û’ جو کہ خالہ بھی تھی، بہو اور بیٹے Ú©Ùˆ گھر سے نکال دیا۔ شاید عورت Ú©ÛŒ طبیعت کا فطری Ø+سد میاں بیوی Ú©ÛŒ Ù…Ø+بت دیکھتے ہوئے آڑے آ گیا۔ اØ+مد Ú©Û’ ماما جی Ù†Û’ Ø+الات Ú©ÛŒ سنگینی کا جائزہ لیتے ہوئے ان Ú©ÛŒ صلØ+ کروائی۔
صلØ+ زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوئی۔ دونوں Ú©Û’ لیے زندگی تنگ کر دی گئی۔ اولاد Ú©ÛŒ امید Ù„Ú¯ÛŒ تو ایک بار پھر سے خالی ہاتھ گھر سے بے گھر کر دیے گئے۔ اللہ پاک Ù†Û’ بیٹے Ú©ÛŒ نعمت سے نوازا مگر خوشیاں ان سے کوسوں دور تھیں۔ ساس Ú©ÛŒ جلی Ú©Ù¹ÛŒ اور بیٹا چھین لینے Ú©ÛŒ باتیں اسے چین نہ لینے دے رہی تھیں۔ اØ+مدکے پاس بیوی Ú©Û’ علاج Ú©Û’ لیے ایک روپیہ نہ تھا۔ عالیہ Ú©ÛŒ بیماری اسے لمØ+ہ لمØ+ہ کھوکھلا کر رہی تھی۔ وہ چاہ کر بھی Ú©Ú†Ú¾ نہیں کر پا رہا تھا۔ سوچ سوچ کر دماغ Ù¾Ú¾Ù¹ رہا تھا مگر عالیہ Ú©Û’ لیے وہ مسکرا رہا تھا۔ اØ+مد کام Ú©ÛŒ تلاش میں نکلا۔ Ú©Ú†Ú¾ دن بعد خبر ملی اØ+مد Ù†Û’ خودکشی کرلی۔ آج اØ+مد Ú©Û’ والدین کا غرو رخاک میں مل چکا تھا،لیکن اب پچھتائے کیا ہوت ۔زندگی میں والدین Ù†Û’ لا وارث کر دیا، ہر چیز سے Ù…Ø+روم کر دیا۔

اØ+مد Ú©ÛŒ موت عالیہ سے اس Ú©ÛŒ زندگی بھی Ù„Û’ گئی۔ عالیہ Ú©Û’ دماغ Ú©ÛŒ نس Ù¾Ú¾Ù¹ گئی اور وہ بیٹے Ú©Ùˆ اس دنیا میں اکیلا Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ گئی۔

یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ روز ہی ایسے کئی واقعات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ خصوصیات سے بھری بیٹی Ú©Û’ بہو بنتے ہی کئی خامیاں سامنے آجاتی ہیں۔ یہ خود ساختہ ہوتی ہیں یا Ø+قیقی یہ بات سب ہی اچھے سے جانتے ہیں۔ انسان معاشرتی Ø+یوان ہے، اکیلے زندگی نہیں گزار سکتا، اچھی اور بہترین زندگی گزارنے Ú©Û’ لیے اسے دوسروں Ú©ÛŒ مدد اور رہنمائی Ú©ÛŒ اشد ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے اگر فرد ہی مل کر نہ رہیں تو بنیاد یقینا Ú©Ú¾ÙˆÚ©Ú¾Ù„ÛŒ ہو گی۔ معاشرے Ú©ÛŒ بنیادی اکائی گھر ہے۔ جب لوگ مل جل کر رہتے ہیں، دکھ سکھ بانٹتے ہیں تو ایک صØ+ت مند معاشرہ جنم لیتا ہے اور اسے مضبوط بنانے Ú©Û’ لیے رشتوں میں Ù…Ø+بت اور قربانی Ú©Û’ جذبات درکار ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ایک اہم کردار بہو ہے۔ وہ Ù„Ú‘Ú©ÛŒ جسے ماں،باپ بچپن سے جوانی تک سر کا تاج بنا کر رکھتے ہیں، جب پرائے گھر جاتی ہے تو خود پرائی ہو جاتی ہے۔ والدین، بہن بھائی، سہیلیاں اور رشتے دار پل بھر میں بیگانے کہلائے جاتے ہیں۔ سسرال ہی تمہارا اصل گھر ہے۔ بیٹی کبھی اس گھر Ú©Ùˆ چھوڑنا نہیں۔ ڈولی اٹھی ہے اب جنازہ ہی جائے گا۔ والدین Ú©ÛŒ نصیØ+تیں بیٹی کا دل چیر دیتی ہیں۔ پیدائش سے اب تک Ú©ÛŒ ساری Ù…Ø+بتیں، ساری ریاضتیں سسرال Ú©Û’ باہر دم توڑ جاتی ہیں۔

سسرال ایک نیا گھر جہاں نئے خواب Ù„Û’ کر آنے والی ہر Ù„Ú‘Ú©ÛŒ اپنے خوابوں Ú©Û’ چکنا چور ہونے پر جیتے جی مر جاتی ہے لیکن پاک ہے وہ رب جس Ú©Û’ قبضے میں یہ جان ہے، بڑی Ø+وصلہ مند تخلیق ہے عورت، جو کہ سہہ جاتی ہے، سہم جاتی ہے مگر گھر ٹوٹنے نہیں دیتی۔ اللہ رب العزت Ù†Û’ عورت Ú©ÛŒ تخلیق سے سکون Ú©Ùˆ تعبیر دیا ہے کہ یہ بیوی، بیٹی، بہن اور ماں ہر کردار میں سراپا سکون ہے۔ ماں ہے تو اس Ú©ÛŒ گود زمانے بھر Ú©Û’ دکھوں کا مداوابن جاتی ہے۔ اس Ú©Û’ آنچل Ú©ÛŒ ہوا جنت Ú©ÛŒ معطر ہوائوں Ú©Ùˆ پیچھے Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ جاتی ہے۔ بیوی ہے تو آنکھوں میں Ú†Ú¾Ù¾Û’ آنسوئوں کو، دل میں دفن دکھ Ú©Ùˆ پل میں بھانپ کر اپنے پیار سے، Ù…Ø+بت سے، دلجوئی سے Ø+وصلہ دیتی ہے۔ دنیا Ú©ÛŒ دوڑ دھوپ سے تھک جانے پہ اس Ú©ÛŒ مسکراہٹ صدیوں Ú©ÛŒ تھکن زائل کر دیتی ہے۔ بہن ہو تو ہر مایوسی Ú©ÛŒ لمØ+Û’ میں کندھے پہ ایسی تھپکی دیتی ہے کہ امید اس مرجھائے ہوئے وجود سے کسی کونپل Ú©ÛŒ طرØ+ نکلتی ہے۔ ابا Ú©ÛŒ ڈانٹ سے بچانے Ú©Û’ ساتھ ساتھ زندگی Ú©Û’ ہر مشکل لمØ+Û’ میں ڈھال بن جاتی ہے۔ بیٹی ہے تو ایک نئی شروعا ت کرنے لگتی ہے۔ گھر کا ہر کام اس Ú©ÛŒ پسند اور مرضی سے ہونے لگتا ہے۔ باپ، بھائی، چاچا، ماما، دادا، نانا سب Ú©ÛŒ نظر کا نور ہوتی ہے۔ پل بھر آنکھ سے اوجھل ہو تو گھر کھانے Ú©Ùˆ دوڑتا ہے۔ رØ+مت الٰہی کا رتبہ پانے والی گھر Ú©Ùˆ رØ+متوں اور برکتوں سے بھر دیتی ہے۔

آہ! ان سب کے ساتھ ایک مظلوم کردار اور بھی ہے، جسے نبھاتے نبھاتے عورت خاک ہو جاتی ہے مگر صلہ کچھ نہیں،وہ کردار ہے بہو۔ معاشرہ تنگ نظر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بیٹے کی شادی ٹھاٹھ سے کرنا ایک عام سی بات ہے۔ لیکن افسوس کہ بیٹے کی نسبت سے آنے والی لڑکی جو کہ بہو(بیٹی) ہے اس کے لیے گھر اور گھر والوں کے دل دونوں تنگ ہوتے ہیں۔۔

ایک Ù„Ú‘Ú©ÛŒ جو ماں باپ، بہن بھائی سب رشتے ناتے Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر آتی ہے۔ اگر اسے وہ عزت، Ù…Ø+بت اور مقام نہ ملے تو وہ ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ والدین Ú©ÛŒ انا Ù†Û’ دو زندگیاں چھین لیں۔ افسوس کہ معاشرہ تنگ نظر ہو گیا۔